Urdu Articles

حضرت خضر علیہ السلام

ڈاکٹر سیّد شہزاد علی نجمی

خضر کا لفظ سنتے ہی فوراََ اس پر اسرار شخصیت کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورہ کہف کی آیت 60 تا 82 میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ایک واقعے کے حوالے سے کیا ہے جس کا حوالہ مختلف احادیث کی کتابوں صحیح بخاری، صحیح مسلم اور جامع ترمذی میں موجود ہے۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں واقعہ کچھ یوں ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذہن میں کسی وقت یہ خیال گزرا کہ اس وقت روئے زمین پر مجھ سے زیادہ صاحب علم شخص کوئی اور نہیں ہے اس بات پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تعلیماََ اور تربیتاََ فرمایا تم دو دریاؤں کے ملنے کے مقام یعنی مجمع البحرین پر پہنچو وہاں تمھیں ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ ملے گا تم اس کی شاگردی اختیار کرنا اور اس سے علم و حکمت کی باتیں سیکھنا۔

اللہ تعالیٰ نے اس بندے کے بارے میں قرآن پاک میں یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اس بندے کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں سے رحمت اور خاص علم یعنی علمِ لدنی عطا کیا تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی کہ تم پکی ہوئی یعنی تلی ہوئی مچھلی اپنے ساتھ رکھ لو اور سفر پر روانہ ہو جاؤ جہاں جس مقام پر کوئی خاص خلاف عقل نشانی ظاہر ہو وہاں اسی مقام پر ہمارا بندہ تمھیں ملے گا موسیٰ علیہ السلام حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایک تلی ہوئی مچھلی تھیلے میں رکھ کر اپنے شاگرد خاص یوشع بن نون کو اپنے ہمراہ لے کر سفر پر یہ کہہ کر روانا ہوئے کہ میں اس وقت تک چلتا رہوں گا جب تک دو دریاؤں کے ملنے کے مقام پر نہ پہنچ جاؤں خواہ کتنا ہی وقت کیوں نہ لگ جائے جب وہ مجمع البحرین کے مقام پر پہنچے تو دونوں وہاں ٹھہر کر کچھ وقت کے لئے ایک پتھر کے ساتھ ٹیک لگا کر آرام کرنے لگے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام جب محو خواب ہوئے تو یوشع بن نون نے کیا مشاہدہ کیا کہ ان کے پاس جو تلی ہوئی مچھلی موجود تھی وہ زندہ ہوئی اوراس نے سرنگ بناتے ہوئے سمندر میں اپنا راستہ بنا لیا اس بات سے وہ بہت حیران ہوئے پھر وہ بھی سوگئے جب دونوں نیند سے بیدار ہوئے تو وہ اپنی مچھلی بھول گئے اور دوبارہ آگے سفر پر چل پڑے اب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تھکن اور بھوک محسوس ہونے لگی تب انہوں نے اپنے شاگرد سے کہا کہ ہمیں اب سفر سے تھکان محسوس ہو رہی ہے اور بھوک بھی لگ رہی ہے ہمارا کھانا لاؤ اس پر یوشع بن نون نے کہا کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ جب ہم راستے میں آرام کے لئے رکے تھے تو وہاں مچھلی زندہ ہوئی اور اس نے عجب طرح سے سمندر میں اپنا راستہ بنایا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم نے یہ بات ہمیں پہلے کیوں نہ بتائی یہی تو وہ مقام ہے جس کی ہمیں تلاش تھی اس پر یوشع بن نون نے کہا کہ اس بات کا ذکر آپ سے کرنا مجھے شیطان نے بھلا دیا تھا پھر وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانات دیکھتے ہوئے واپس اسی راستے پر لوٹے جہاں انہوں نے آرام کیا تھا وہاں پہنچنے کے بعد وہ حضرت خضر علیہ السلام کو تلاش کرنے لگے آخر کار انہیں وہاں ویرانے میں حضرت خضر علیہ السلام چادر اوڑھے لیٹے نظر آئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا اور پھر اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میں موسیٰ ہوں تو حضرت خضر علیہ السلام نے کہا کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ انہوں نے کہا ہاں میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ کے پاس وہ علم سیکھنے آیا ہوں کہ جس کی خبر مجھے نہیں۔

حضرت خضر علیہ السلام نے کہا آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے حضرت خضر علیہ السلام نے کہا صرف اس شرط پر آپ میرے ساتھ رہ سکتے ہیں کہ آپ میرے کسی معاملے میں مجھ سے سوال نہیں کریں گے یہاں تک کہ میں آپ کو اس کی حقیقت خود نہ بتا دوں اس کے بعد وہ ایک کشتی میں بیٹھ کر دوسرے علاقے میں پہنچے کشتی والا جب کشتی کنارے پر لگا کر چلا گیا تب حضرت خضر علیہ السلام نے اس کشتی کے نچلے حصے کا ایک تختہ اکھاڑ ڈالا جس سے کشتی عیب دار ہوگئی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ تو آپ نے بڑا غلط کام کیا کشتی میں سوراخ کر ڈالا کیا آپ اس کے سواروں کو غرق کرنا چاہتے ہیں؟ حضرت خضر علیہ السلام نے کہا میں نے آپ سے پہلے ہی کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا مجھ سے بھول ہو گئی آپ درگزر کیجئے اور اس معاملے میں مجھ پر سختی نہ کیجئے آئندہ میں کوئی سوال نہ کروں گا۔

خیر وہ آگے چل پڑے راہ سفر میں انہیں ایک نوعمر لڑکا ملا جس کو حضرت خضر علیہ السلام نے قتل کر ڈالا اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام چیخ اٹھے کہ یہ آپ نے تو بہت ہی بڑا ظلم کیا جو ایک معصوم بچے کو بغیر کسی قصور کے مار ڈالا حضرت خضر علیہ السلام نے اب سخت الفاظ میں کہا کہ میں نے آپ سے پہلے ہی کہا تھا آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کر سکیں گے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بار پھر اپنی غلطی کی معافی مانگی اور کہا کہ اگر اب مجھ سے غلطی ہو تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیے گا حضرت خضر علیہ السلام نے اس بار بھی درگزر سے کام لیا اس کے بعد وہ لوگ ایک آبادی میں پہنچے وہاں کے لوگ خوش حال نظر آتے تھے حضرت خضر علیہ السلام نے آبادی کے لوگوں سے کہا کہ ہم لوگ مسافر ہیں اور بھوکے بھی ہیں اگر آپ لوگ ہمیں کھانا کھلادیں تو آپ لوگوں کی بڑی مہربانی ہو گی اس بستی والوں نے ان کی ضیافت سے قطعی انکار کر دیا اس کے بعد وہ آگے کی طرف چل پڑے راستے میں انہیں ایک بوسیدہ دیوار نظر آئی جو گرنے کے قریب تھی حضرت خضر علیہ السلام نے اس دیوار کو دوبارہ سے تعمیر کرکے درست کر دیا اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اس بستی کے لوگ تو بڑے ہی بد اخلاق ہیں ہمیں کھانا کھلانے سے انکار کردیا اور آپ نے ان لوگوں کی دیوار بغیر کسی اجرت کے دوبارہ سے تعمیر کردی اگر آپ اس کے لئے کچھ مزدوری لیتے تو ہمارے کھانے کا کام تو چلتا حضرت خضر علیہ السلام نے کہا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے لحاظہ اب ہمارے راستے جدا ہوئے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ٹھیک ہے مگر آپ نے جو یہ خلاف شریعت کام کیئے تھے اس بارے میں بتاتے جائیں کہ آپ نے ایسا کیوں کیا تھا؟ حضرت خضر علیہ السلام نے کہا میں نے جو کچھ بھی کیا اپنی مرضی سے نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا تھا کشتی کا ایک تختہ میں نے اکھاڑ کر اس کو عیب دار اس لئے بنا دیا تھا کہ جس علاقے میں ہم پہنچے تھے وہاں کے حکمران نے اپنے سپاہیوں کو حکم دے رکھا تھا کہ تمام اچھی اور درست کشتیاں جہاں پر بھی نظر آئیں انہیں اپنے قبضے میں لے لو جس کشتی پر ہم سوار ہوئے تھے وہ غریب لوگوں کی تھی اور ان کا ذریعہ آمدنی بس یہی کشتی تھی میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں تاکہ کشتی بچ جائے ایک تختہ تو دوبارہ لگ سکتا ہے اگر پوری کشتی چلی جاتی تو کیا ہوتا؟ اور وہ جو لڑکا تھا اس کے ماں باپ دونوں نیک اور مومن تھے میں نے جانا کہ وہ بڑا ہو کر ظالم اور بد کردار نکلے گا اور اپنے ماں باپ دونوں کو سرکشی اور کفر میں پھنسا دے گا میں نے چاہا کہ پروردگار ان کو اس سے بہتر اولاد عطا فرمائے جو نیک سیرت ہو اور محبت میں ان سے زیادہ قریب ہو اور وہ جو دیوار میں نے درست کی تھی دو یتیم بچوں کی تھی جو شہر میں رہتے تھے اس دیوار کی جڑ میں ان کا خزانہ دفن تھا ان کا باپ انتہائی نیک انسان تھا اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ جب وہ جوانی کی عمر کو پہنچ جائیں تو اس دیوار کو نشانی سمجھ کر آئیں اور اپنی امانت نکال لیں یہ ان باتوں کی حقیقت تھی جس پر آپ صبر نہ کرسکے۔

حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں بہتر طور پر جاننے کے لئے ہمیں ازل کے ان واقعات کی طرف جانا ہوگا جب اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات کے بعد سب سے پہلے فرشتوں کو نور سے اور جنات کو آگ سے پیدا کیا عزازیل جو جنات میں سے تھا اللہ تعالیٰ کا انتہائی مقرب تھا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی معرفت کا خاص علم عطا فرما کر معلم ملکوت کے درجے پر فائز کیا تھا اور وہ ایک وقت مقررہ تک فرشتوں کو تعلیم دیتا رہا جب اللہ تعالیٰ نے اپنے علم سے جانا کہ اب عزازیل میں اپنی تخلیق اور علم کے حوالے سے غرور و تکبر کا مرض بڑھتا جا رہا ہے تب اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ میں مٹی سے اپنا نائب یعنی خلیفہ آدم بنانے جارہا ہوں یہ سن کر عزازیل نے سوچا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنا نائب بنا لیا تو میری حیثیت کل کائنات میں ختم ہو جائے گی اب اس میں حضرت آدم علیہ السلام کے خلاف حسد اور غصہ پیدا ہونے لگا اس نے فرشتوں کو یہ تعلیم دینا شروع کر دی کہ اللہ تعالیٰ جو اپنا خلیفہ بنانے جارہا ہے یہ زمین پر جا کر فتنہ و فساد کرے گا اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری اور اس کی حمد و ثنأ کے لئے تو تم ہی کافی ہو۔

اس بات پر فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ آپ زمین پر ایسے شخص کو نائب بنانے جا رہے ہیں جو زمین پر جا کر خرابیاں پیدا کرے اور قتل و غارت کرتا پھرے ہم ہر وقت آپ کی فرماں برداری، عبادت اور تعریف کے ساتھ تسبیح میں مشغول رہتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو باتیں میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق مکمل کر لی اور ان میں اپنی روح پھونک دی کہ وہ جیتے جاگتے بن گئے تب ان کو کائنات پر حکمرانی سے متعلق اسرار و رموز پر مبنی علم، علم الاسماء کی صورت میں عطا کیا پھر فرشتوں سے فرمایا اگر تم سچے ہو تو نیابت سے متعلق امور کے بارے میں بتاؤ فرشتوں نے کہا کہ ہم کو اس بارے میں کچھ بھی علم نہیں ہے پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا تم اس بارے میں بیان کرو حضرت آدم علیہ السلام نے فرشتوں کو اس بارے میں بتانا شروع کر دیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تم سب کے سب آدم کو ہمارے نائب و خلیفہ کی حیثیت سے یعنی اس کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو سجدہ کرو تو تمام فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا مگر عزازیل یعنی شیطان غرور میں آگیا اور حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور اللہ تعالیٰ سے کہنے لگا مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے میں زیادہ افضل ہوں اسے تو نے مٹی جیسی حقیر چیز سے پیدا کیا ہے یہ مجھ سے کمتر ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا مردود ابلیس یہاں سے نکل جا شیطان نے کہا مجھے اس دن تک مہلت عطا فرما جس دن لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تجھ کو مہلت دی جاتی ہے ابلیس نے کہا تو نے مجھے مردود کیا میں اس روز تک جس دن مردے قبروں سے اٹھائے جائیں گے تیرے مخصوص بندوں کو چھوڑ کر سب کو گمراہ کروں گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو تیری پیروی کریں گے تجھ سمیت ان سب گمراہ بندوں کو جہنم میں بھر دوں گا۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا تم اور تمھاری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے جو چاہو کھاؤ پیو مگر اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ گناہ گار ہو جاؤ گے شیطان آدم اور ان کی بیوی کو دھوکے سے بہکا کر اس درخت کے قریب لے گیا جس کے قریب اللہ تعالیٰ نے انہیں جانے سے منع فرمایا تھا جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ انہوں نے حکم کی خلاف ورزی کی ہے تو پکار کر کہا اے آدم کیا میں نے تمھیں اس درخت کے قریب جانے سے منع نہیں کیا تھا؟ تو اس پر حضرت آدم علیہ السلام اور انکی بیوی دونوں عرض کرنے لگے کہ ہم نے اپنی جانوں پر بڑا ظلم کیا اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا تو ہم تباہ ہو جائیں گے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم سب بہشت سے نکل جاؤ اس وقت سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو تمھارے لئے زمین پر ایک خاص وقت مقررہ تک کے لئے ٹھکانا اور زندگی کا سامان مہیا کر دیا گیا ہے اور وہاں تمھارا جینا مرنا ہوگا اور وہاں سے تم قیامت کے دن اپنی قبروں سے نکالے جاؤ گے پھر حضرت آدم علیہ السلام نے پروردگار عالم سے کچھ کلمات سیکھے اور معافی مانگی تو اس نے ان کا قصور معاف کر دیا۔

حضرت آدم علیہ السلام سے غلطی ہوئی جس کے نتیجے میں وہ زمین پر اتارے گئے مگر فی الارض خلیفہ کی حیثیت برقرار رہی جو معرفت الہٰی انہیں حاصل تھی اس میں کچھ بھی فرق نہ آیا جیسے جیسے آدم کی نسل زمین پر پھیلتی گئی تو ان کی اخلاقی و معاشرتی تربیت کی ضرورت پڑی جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی اولادوں میں سے اپنے نیک اور صالح بندوں کو منتخب کیا جو انبیا یا پیغمبر کہلائے اور ان کے ذریعے جو ظاہری دنیاوی زندگی گزارنے کے اعلیٰ اخلاقی اصول و قوانین دئے گئے اس کا نام شریعت ہے اسی طرح ازل میں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے آگے فرشتوں کو سجدہ کروا کے اپنے نائب کی حیثیت سے حضرت آدم علیہ السلام کی حاکمیت کو تسلیم کروا دیا تھا اس وقت سے عالم غیب میں نظام ہائے تکوین کا شعبہ وجود میں آگیا تھا جس میں حضرت آدم علیہ السلام کے بعد ان کی اولادوں میں سے منتخب بندوں کو دنیاوی انتظام چلانے اور قضا و قدر کے فیصلوں کی ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی جاتی رہی ہیں فرشتے ان کی زیر سرپرستی ان کی ہدایت کے مطابق اپنی ذمہ داریاں انجام دینے میں مصروف رہتے ہیں ویسے تو اللہ تعالیٰ کے نظام تکوین میں بہت سے عہدے ہیں مگر ان میں سے چند مشہور یہ ہیں قطب ارشاد، قطب مدار، قلندر، خضر وقت، غوث، ابدال، اوتاد، اخیار وغیرہ۔

قطب کے لغوی معنی چکی کی کیل کے ہیں جو چکی کے درمیان میں لگی ہوتی ہے اور چکی کی گردش کا انحصار اس ایک کیل پر ہوتا ہے اس لئے اگر قطب نہ ہوں تو تمام عالم کا انتظام درہم برہم ہو جائے۔ ارشاد کے معنی رہنمائی کے ہیں اس لئے قطبِ ارشاد سے مخلوقِ خدا کو ظاہر و باطن ہر طرح کا فیض و فائدہ پہنچتا ہے۔ قطبِ مدار جسے تفہیم مدار بھی کہتے ہیں غیب میں اس کا نام عبد اللہ ہوتا ہے اور تمام عالم میں صرف ایک ہی ہوتا ہے یہ اپنی صفت میں کامل و مکمل ہوتا ہے اور چکی کی کیل کے موافق اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے مدار کے معنی جائے گردش کے ہیں اس لئے تمام مخلوق اس کی گرویدہ ہوتی ہے اور اپنے کاموں میں اس سے مدد چاہتی ہے قطبِ مدار ہی دراصل قطبُ الاقطاب کہلاتا ہے۔ قلندر اسے کہتے ہیں جو تجرید و تفرید میں یکتا اور بے پروا ہو اور تمام عالم کا حال اس پر روز روشن کی طرح عیاں ہو اور جو اوصاف ولایت عارفوں میں ہونا چاہئے اس میں بے مثل موجود ہوں اور شرط یہ ہے کہ سالک بھی ہو اور مجذوب بھی ہوجیسے حضرت بو علی قلندرؒ، حضرت لعل شہباز قلندرؒ اور جیسے اس زمانے میں حضور قلندر بابا اولیاؒ گزرے ہیں۔

خضر وقت وہ ہے جس پر مثل حضرت خضر علیہ السلام کی طرح سے علمِ اسرار منکشف ہو یعنی صاحب علم لدنی ہو اور جس پر توجہ کرے اس کو باطنی علم سے کامل کردے اور ہر طرح سے ظاہراََ و باطناََ خلق خدا کی رہنمائی کرے۔ غوث کے معنی فریاد کرنے والے پکارنے والے اور دعا کرنے والے کے ہیں عربی زبان کے محاورے میں غوث بمعنی پکارنے اور دعا کرنے والے کے ہیں جب مخلوق خدا اپنی پریشانیاں اور دکھ غوث کے روبرو پیش کرتے ہیں تو وہ بارگاہ خداوندی میں ان کے لئے دعا اور فریاد کرتے ہیں۔ ابدال بدل کی جمع ہے اگر یہ گروہ نہ ہو تو دنیا کا سارا نظام خراب ہو جائے ان کی تعداد ہر زمانے میں چالیس رہتی ہے اور ہر ایک کے ستر ستر تن ہوتے ہیں ان پر دنیاوی معاملات سے متعلق کام کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے بہت سے اجسام ہوتے ہیں ان چالیس ابدالوں میں سے اگر کسی کی وفات ہو جائے تو اخیار میں سے ان کا بدل منتخب کر لیا جاتا ہے۔ اوتاد جمع ہے وتد کی جس کے معنی میخ کے ہیں یعنی یہ اپنی ذمہ داری و فرائض کی انجام دہی کے لئے مثل میخ آہن کی طرح سے اپنی جگہ پر جمے رہتے ہیں ان کی ذمہ داری صرف غیب تک ہی محدود رہتی ہے۔ اخیار بھی اللہ تعالیٰ کے نظام تکوین کا ایک گروہ ہے ان کی تعداد پانچ سو بتائی جاتی ہے یہ غوث کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں انہیں اہل ولایت بھی کہا جاتا ہے۔ اہل تکوین کی تصدیق رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہوتی ہے۔

حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ میری امت میں ہر زمانے میں چالیس ابدال اور پانچ سو اخیار ہوں گے ان کی تعداد میں کمی ہو گی نہ زیادتی اگر ابدال میں سے کوئی وفات پا جائے گا تو اخیار میں سے اللہ تعالیٰ دوسرے شخص کو ان میں داخل فرمادے گا۔ اسی امت میں تیس ابدال ایسے ہوں گے جن کے قلوب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قلب پر ہوں گے ان میں سے جو وفات پا جائے گا اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا بدل دے گا۔ ( امام احمدؒ )۔

فرمایا میری امت میں تیس ابدال ہوں گے ان کے سبب زمین قائم رہے گی ان کی وجہ سے بارش برسائی جائے گی اور ان کی وجہ سے مدد دی جائے گی۔ ( طبرانی)۔

فرمایا ابدال شام میں ہوں گے ان کی وجہ سے تمھیں رزق دیا جائے گا۔ ( طبرانی)۔

فرمایا تیس اور اسی مردوں سے زمین خالی نہ رہے گی جو مثل ابراہیم خلیل اللہ کے ہوں گے جن کے سبب سے تمھاری فریاد رسی ہوگی ان کے سبب سے تمھیں رزق دیا جائے گا اور بارش برسائی جائے گی۔ ( ابن حبان)۔

فرمایا ابدال چالیس ہیں بائیس شام میں ہوتے ہیں اور اٹھارہ عراق میں ان میں سے جو بھی وفات پا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا بدل دیتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے گا سب وفات پا  جائیں گے اور اس وقت قیامت آجائے گی۔ (ابن عدی)۔

____________________________________________________________________________________________________________________________________________________________________________________________________________________________________

سلسلۂ عالیہ خضریہ

صوفی محمد عظیم الخضری

سلسلۂ عالیہ خضریہ دنیائے طریقت و معرفت کا ایک روحانی سلسلہ ہے جو کہ موجودہ صدی عیسوی و ہجری میں درخشندہ ستارے کی مانند اس عالم رنگ و بو میں جلوہ افروز ہوا ہے جس کی سنگ بنیاد نجیب الطرفین سیّد السادات صاحب طریقت و معرفت حضرت سیّد شہزاد علی نجمی دامت برکاتہم نے بحکم خدا وندی و تکوینی نظام کے تحت سن 2004 ء میں رکھی سلسلۂ عالیہ خضریہ بیعت و خلافت جذب و سلوک کے طریقے پر قائم کیا گیا ہے اس میں طالبان حق کو روحانی فیض بطریقۂ نسبت اویسیہ منتقل ہوتا ہے رنگ سلسلے کا قلندرانہ و فقیرانہ ہے تصوف میں فقیر اللہ کےعارف کو کہتے ہیں اور اس میں عاجزی و انکساری پائی جاتی ہے سلسلۂ خضریہ روائتی پیری مریدی جبہ ودستار اور گدی نشینی کی حد بندیوں سے آزاد ہے لہٰذا خلیفۂ مجاز سلسلہ نشست و برخاست سادہ عوامی انداز سے کرتے ہیں روحانی فیوض و برکات کے حصول کا ذریعہ ذکر و فکر اور مراقبہ ہے۔

سلسلۂ خضریہ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ لفظ خضر سے منسوب ہے خضر اللہ تعالیٰ کے نظام تکوین کا ایک مقام یا تکوینی عہدہ ہے جیسے غوث، قطب، ابدال، اخیار اور قلندر وغیرہ قرآن پاک میں سورہ کہف کی آیت 60 تا 82 میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ تم دو دریاؤں کے ملنے کے مقام پر پہنچو وہاں تمھیں ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ ملے گا تم اس کی شاگردی اختیار کرنا اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اس بندے کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں سے ایک خاص علم جسے علم لدنی کہا جاتا ہے عطا کیا تھا جس کی وجہ سے اس بندے کو ایک خاص قسم کی فضیلت حاصل تھی قرآن پاک میں اس بندے کا نام موجود نہیں ہے مگر صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے اس بندے کا نام خضر بتایا ہے قرآن کریم کی سورہ کہف کے اس واقعہ کا حوالہ دیگر مستند احادیث کی کتب صحیح مسلم اور جامع ترمذی شریف میں بھی موجود ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جس بندے کی شاگردی کے لئے بھیجا تھا وہ اس زمانے کے صاحب خدمت اہل تکوین بزرگ تھے بالکل اسی طرح سے اللہ تعالیٰ کے نظام ہائے تکوین سے متعلق صاحب خدمت افراد اولیاء اللہ ہر زمانے میں اپنی اپنی خدمت پر مامور رہتے ہیں سلسلہ عالیہ خضریہ میں نظام تکوین کے منصب خضر کو نمونہ و بنیاد بنا کر سلسلے کی بنیاد رکھی گئی ہے اس بات کو سلسلۂ عالیہ قلندریہ کی مثال سے با آسانی سمجھا جا سکتا ہے جس کی بنیاد حضرت ذوالنون مصری رحمتہ اللہ علیہ نے رکھی تھی سلسلہ عالیہ قلندریہ میں کسی انسانی ذات مثلاََ حضرت لعل شہباز قلندرؒ، حضرت بو علی شاہ قلندرؒ یا کسی اور قلندر کی ذات کو نمونہ نہیں بنایا گیا ہے بلکہ نظام تکوین کے منصب قلندر اور اس کی کیفیت کو بنیاد و نمونہ بنایا گیا ہے بالکل اسی طرح سے سلسلۂ عالیہ خضریہ کی مثال ہے دنیائے طریقت کے چار روحانی سلسلے جن میں قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ اور سہروردیہ شامل ہیں عوام میں زیادہ مشہور رہے ہیں وقت اور زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ مختلف صوفیائے اکرام نے اس وقت کے موجودہ حالات کے پیش نظر ماحول و مزاج کے مطابق نئے روحانی سلاسل کی بنیادیں رکھیں ایک تحقیقی اندازے کے مطابق اس وقت دنیائے عالم میں رشد و ہدایت کے تقریباََ دو سو روحانی سلاسل طریقت کام کر رہے ہیں اس وقت برصغیر پاک و ہند میں جو روحانی سلسلے زیادہ مقبول ہیں ان میں سے چند کے نام یہ ہیں جیسے سلسلۂ قادریہ، سلسلۂ چشتیہ، سلسلۂ نقشبندیہ، سلسلۂ سہروردیہ، سلسلۂ وارثیہ، سلسلۂ تاجیہ اور سلسلۂ عظیمیہ وغیرہ اور ان کے مختصر حوالاجات درج ذیل ہیں۔

سلسلۂ عالیہ قادریہ : سلسلۂ قادریہ کے امام سلسلہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑے اعلیٰ مرتبے سے نوازا ہے آپ کے پیرومرشد کا اسم گرامی ابو سعید مبارک مخزومیؒ ہے۔ آپ کو محی الدین کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے اس کے علاوہ آپ کو عقیدت مند پیران پیر دستگیر اور بڑے پیر صاحب کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں آپ کا مزار مبارک عراق کے دارالحکومت بغداد میں مرجع خلائق ہے۔

سلسلۂ عالیہ چشتیہ : سلسلۂ چشتیہ کے امام سلسلہ حضرت ممشاد علی دینوری رحمتہ اللہ علیہ ہیں آپ کے پیرومرشد کا اسم گرامی خواجہ ابو ہبیرہ امین الدین بصریؒ ہے۔ سلسلہ چشتیہ کا نام چشت سے منسوب ہے جو افغانستان کے شہر ہرات کے قریب واقع ہے۔ حضرت ممشاد دینوریؒ نے اپنے شاگرد ابو اسحاق شامیؒ کو وسط ایشیائی ریاستوں میں اسلامی روحانی تبلیغ کے لئے بھیجا اس زمانے میں ان علاقوں میں آتش پرستی عام تھی حضرت ابو اسحاق شامیؒ  کے اعلیٰ اخلاق، ہمدردی اور سخاوت کے جذبے کو دیکھ کر وہاں کے لوگ کافی متا ثر ہوئے جس کے نتیجے میں کافی تعداد میں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو ئے۔ چشتیہ سلسلے کے حوالے سے ہندوستان میں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے آپ خواجہ غریب نوازؒ کے نام سے عوام میں زیادہ مشہور ہیں آپ کا لقب سلطان الہند بھی ہے آپ کے دست حق پر بڑی تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا آپ کا مزار مبارک اجمیر شریف میں مرجع خاص و عام ہے۔ چشتیہ سلسلے کے بزرگوں میں حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ، حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ، حضرت مخدوم علی احمد صابر کلیریؒ اور حضرت نظام الدین اولیاءؒ کا نام بھی خاصہ مشہور ہے۔

سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ: سلسلۂ نقشبندیہ کے امام سلسلہ حضرت بہاؤ الدین نقشبند رحمتہ اللہ علیہ ہیں آپ کے پیرومرشد کا اسم گرامی امیر سیّد کلالؒ ہے۔ نقشبندیہ سلسلے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ حضرت امیر کلالؒ نے حضرت بہاؤ الدینؒ کو بیعت کرنے کے بعد ظروف پر نقش اسم ذات کندہ کرنے کی ذمہ داری عائد کی تھی ایک روز وہ ایسا نہ کرسکے ایک بغضی شخص نے شکایت کی نیت سے تمام برتن حضرت امیر کلالؒ کی خدمت میں حاضر کر دئیے اس پر جب حضرت امیر کلالؒ نے حضرت بہاؤ الدینؒ سے پوچھا کہ تم نے آج برتنوں پر نقش کندہ کیوں نہیں کیئے تو یہ سن کر حضرت بہاؤ الدینؒ نے جو ایک نگاہ برتنوں پر ڈالی تو فوراََ ہی سب پر نقش اسم ذات کندہ ہو گئے یہ دیکھ کر حضرت امیر کلالؒ نے کہا کہ آپ نقشبند ہیں۔ سلسلۂ قادریہ، سلسلۂ چشتیہ اور سلسلۂ سہروردیہ کا شجرہ طریقت حضرت علی کرم اللہ وجہ کے واسطے سے رسول اللہ ﷺ سے جا کر ملتا ہے لیکن سلسلۂ نقشبندیہ کا شجرہ طریقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطے سے رسول اکرم ﷺ سے جاکر ملتا ہے۔ سلسلۂ نقشبندیہ نے اسلام کی اشاعت اور صوفیائے اکرام کی تعلیمات کے فروغ کے حوالے سے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں سلسلۂ نقشبندیہ کے مشہور صوفی بزرگوں میں حضرت سیّد رضی الدین المعروف خواجہ باقی باللہ ؒ، حضرت مجدّد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ اور حضرت سیّد جماعت علی شاہؒ کے نام شامل ہیں۔

سلسلۂ عالیہ سہروردیہ: سلسلۂ سہروردیہ کے امام سلسلہ حضرت ضیا الدین ابو نجیب ابو القاہر سہروردی رحمتہ اللہ علیہ ہیں آپ کے پیرومرشد کا اسم گرامی شیخ وجیہ الدین ابو حفصؒ ہے۔ یہ سلسلہ پانچ واسطوں سے حضرت جنید بغدادیؒ سے جا ملتا ہے اس سلسلے کے مشہور صوفیائے اکرام میں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ، حضرت بہاؤ الدین ذکریہ ملتانی ؒ، حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت ؒ اور حضرت شاہ رکن عالم ؒ کے نام شامل ہیں۔

سلسلۂ عالیہ وارثیہ: سلسلۂ وارثیہ کے امام سلسلہ حضرت سیّد وارث علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ ہیں آپ کے پیرومرشد کا اسم گرامی حاجی خادم علی شاہؒ  ہے۔ آپ کے آباؤ اجداد نیشا پور سے سن 1657ء میں ہجرت کرکے ہندوستان تشریف لائے اور لکھنؤ کے قریب بارہ بنکی کے مقام پر رہائش اختیار کی آپ کی ولادت یہیں ہوئی آپ نے لکھنؤ کے ارد گرد کے وسیع و عریض علاقے کو اپنی روحانی تبلیغ سے متاثر کیا جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے آپ کا شمار ہندوستان کے ممتاز صوفیائے اکرام میں ہوتا ہے آپ سخت مجاہدانہ زندگی گزارنے کے بعد سن 1904ء کو اس جہان فانی سے پردہ فرما گئے آپ کا مزار اقدس بارہ بنکی کے قصبے دیوا شریف میں واقع ہے آپ سے فیض یافتہ حضرات کی تعداد یوں تو بہت ہے مگر ان میں سے بیدم شاہ وارثی ؒ، حیرت وارثی ؒ اور عنبر شاہ وارثی ؒ کا نام زیادہ مشہور ہے۔

سلسلۂ عالیہ تاجیہ: سلسلۂ تاجیہ کے امام سلسلہ حضرت بابا تاج الدین ناگپوری رحمتہ اللہ علیہ ہیں آپ مادر زاد ولی ہیں آپ کا اصلی نام محمد صغریٰ تاج الدین ہے آپ حضرت امام حسن عسکری ؒ کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ کا شمار جلیل القدر اولیاء اللہ میں کیا جاتا ہے آپ تاج الاولیاء اور شہنشاہ ہفت اقلیم کے لقب سے بھی پہچانے جاتے ہیں آپ کی نسبت سے فیض یافتہ حضرات پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں اس حوالے سے حضرت بابا ذہین شاہ تاجیؒ کا نام قابل ذکر ہے۔

سلسلۂ عالیہ عظیمیہ: سلسلۂ عظیمیہ کے امام سلسلہ حضرت حسن اخریٰ سیّد محمد عظیم برخیا المعروف حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ ہیں آپ نے سلسلۂ عظیمیہ کی سنگ بنیاد جولائی سن 1960ء میں رکھی آپ کے پیرومرشد کا اسم گرامی سیّد ابو الفیض قلندر علی سہروردیؒ ہے۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ رشتے میں حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ کے نواسے ہیں لہٰذا آپ اپنی ابتدائی عمر میں روحانی تربیت کی خاطر بابا تاج الدین صاحبؒ کے پاس جایا کرتے تھے۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ ابدالوں میں سے تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں مقام قلندریت عطا فرمایا ہے۔ اجرائے سلسلہ کے حوالے سے حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے اپنے چار شاگردوں کو صاحب مجاز قرار دیا تھا جن میں خواجہ شمس الدین عظیمی، ڈاکٹر عبد القادرؒ، بدر الزماںؒ اور عبید اللہ درانی ؒ شامل تھے حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے سلسلۂ عظیمیہ کے فروغ کے لئے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جس کی بدولت آج سلسلۂ عظیمیہ بین الاقوامی شہرت اختیار کر چکا ہے۔